حرم مکی سے مراد مسجد حرام ہے مسجد حرام دینِ اسلام کا مقدس ترین مقام ہے۔ صاحب حیثیت مسلمانوں پر زندگی میں ایک مرتبہ بیت اللہ کا حج کرنا فرض ہے۔سیدنا ابراہیم کا قائم کردہ بیت اللہ بغیر چھت کےایک مستطیل نما عمارت تھی جس کےدونوں طرف دروازے کھلے تھےجو سطح زمین کےبرابر تھےجن سےہر خاص و عام کو گذرنےکی اجازت تھی۔ اس کی تعمیر میں 5 پہاڑوں کے پتھر استعمال ہوئےتھےجبکہ اس کی بنیادوں میں آج بھی وہی پتھر ہیں جو سیدنا ابراہیم نےرکھےتھے۔ خانہ خدا کا یہ انداز صدیوں تک رہا تاوقتیکہ قریش نے 604ء میں اپنےمالی مفادات کےتحفظ کےلئےاس میں تبدیلی کردی کیونکہ زائرین جو نذر و نیاز اندر رکھتےتھےوہ چوری ہوجاتی تھیں۔قریش نےبیت اللہ کے شمال کی طرف تین ہاتھ جگہ چھوڑ کر عمارت کو مکعب نما (یعنی کعبہ) بنادیا تھا۔اور اس پر چھت بھی ڈال دی تاکہ اوپر سےبھی محفوظ رہے، مغربی دروازہ بند کردیا گیا جبکہ مشرقی دروازےکو زمین سےاتنا اونچا کردیا گہ کہ صرف خواص ہی قریش کی اجازت سےاندر جاسکیں۔ اللہ کےگھر کو بڑا سا دروازہ اور تالا بھی لگادیا گیا جو مقتدر حلقوں کےمزاج اور سوچ کےعین مطابق تھا۔ حالانکہ نبی پاک ﷺ (جو اس تعمیر میں شامل تھےاور حجر اسود کو اس کی جگہ رکھنےکا مشہور زمانہ واقعہ بھی رونما ہوا تھا) کی خواہش تھی کہ بیت اللہ کو ابراہیمی تعمیر کےمطابق ہی بنایا جائے۔سیدنا عبداللہ بن زبیر (جو حضرت عائشہ کے بھانجے تھے اور سیدنا حسین کی شہادت کےبطور احتجاج یزید بن معاویہ سےبغاوت کرتےہوئےمکہ میں اپنی خود مختاری کا اعلان کیا تھا) نےنبی پاک کی خواہش کا احترام کرتےہوئے685ءمیں بیت اللہ کو دوبارہ ابرہیمی طرز پر تعمیر کروایا تھا مگر حجاج بن یوسف نے693ء میں انہیں شکست دی تو دوبارہ قریشی طرز پر تعمیر کرادیا جسےبعد ازاں تمام مسلمان حکمرانوں نےبرقرار رکھا۔خانہ کعبہ کےاندر تین ستون اور دو چھتیں ہیں۔ کعبہ کےاندر رکن عراقی کےپاس باب توبہ ہےجو المونیم کی 50 سیڑھیاں ہیں جو کعبہ کی چھت تک جاتی ہیں۔ چھت پر سوا میٹر کا شیشے کا ایک حصہ ہےجو قدرتی روشنی اندر پہنچاتا ہے۔ کعبہ کی موجودہ عمارت کی آخری بار 1996ء میں تعمیر کی گئی تھی اور اس کی بنیادوں کو نئےسرےسےبھرا گیا تھا۔ کعبہ کی سطح مطاف سےتقریباً دو میٹر بلند ہےجبکہ یہ عمارت 14 میٹر اونچی ہے۔ کعبہ کی دیواریں ایک میٹر سےزیادہ چوڑی ہیں جبکہ اس کی شمال کی طرف نصف دائرےمیں جوجگہ ہےاسےحطیم کہتےہیں اس میں تعمیری ابراہیمی کی تین میٹر جگہ کےعلاوہ وہ مقام بھی شامل ہےجو حضرت ابراہیم نے حضرت ہاجرہ ؑ اور حضرت اسماعیل کےرہنےکےلئےبنایا تھا جسےباب اسماعیل کہا جاتا ہے۔اب بھی حرم مکی کی توسیع وتعمیر کا کام جاری ہے ۔ حرم مدنی سے مردا مسجد نبوی ہے۔ یہ وہ مسجد ہے جس کی بنیاد اول سے ہی تقویٰ پر ہے ۔اسے خود سرور کائنات ﷺ اورآپ کے صحابہ کرام نے اپنے ہاتھوں سےتعمیر کی۔ جن لوگوں نے اس مسجد کی تعمیر میں حصہ لیا ان کےلیے دعا خیرفرمائی۔یہ سب سے پہلا گھر (مدرسہ ) تھا جس سے ایسے آدمی تعلیم حاصل کر کے نکلے جنہیں کاروبار ، خرید وفروخت اللہ کے ذکر سےغافل نہ کرسکی۔ جنہوں نےنماز کی اقامت کی اور زکاۃ کی ادائیگی میں کوتاہی نہیں کی۔ جنہوں نے اللہ کی حدود کو قائم رکھا اور شہروں، قصبات کو فتح کیا اور مشرق ومغرب ان کےماتحت ہوگئے اس مسجد میں حضور اکرم ﷺ کےزمانہ سے لے کر اس آخری بڑی عمارت کے تعمیر ہونے تک بڑے بڑے تغیرات آئے اور وقتا ً فوقتاً مسجد کی عمارت و سیع ہوتی گئی۔ زیر تبصرہ کتاب’’ تاریخ حرمین شریفین ‘‘علامہ الحاج عباس کرارہ مصری کی عربی تصیف کا ترجمہ ہے۔ یہ کتاب دوحصوں پر مشتمل ہے حصہ اول میں حرم مکی، خانہ کعبہ، مقام ابراہیم، چاہ زمزم، او رملحقہ مقامات کی مکمل اور جامع تاریخ ہے۔ اور حصہ ثانی میں مسجد نبوی ، روضۂ پاک، حجرہ شریف، اور محراب نبوی ﷺ وغیرہ کا مکمل اورجامع تذکرہ کے علاوہ تعمیر جدید کے حوالے بھی تفیلاً معلومات تحریر کی ہیں۔عربی کتاب کو اردو قالب میں ڈھالنے کا فریضہ مولانا سیف الرحمن الفلاح نے انجام دیا ترجمہ کے ساتھ ساتھ کتاب پر مفید حواشی بھی تحریر کیے۔ (م۔ا).
دین اسلام ایک کامل ضابطہ حیات ہے جس میں تمام افراد بشر...
اللہ تبارک وتعالیٰ نے مسلمانوں کو ایک بڑی دولت اور نعمت سے...
شریعتِ اسلامیہ میں عبادات اللہ اور اس کے بندوں کے درمیان مناجات...
بلاشبہ نماز ارکانِ اسلام میں سے ایک اہم رکن ہے اوردین کا...
صحیح احادیث کے مطابق رکعاتِ تراویح کی مسنون تعداد آٹھ ہے ۔مسنون...
امت مسلمہ مسئلہ حیات مسیح ؑ پر ہر دور میں متفق رہی...
Created with AppPage.net
Similar Apps - visible in preview.