انسان شروع سےہی اس دنیا میں تمدنی او رمجلسی زندگی گزارتا آیا ہے پیدا ہونے سے لے کر مرنے تک اسے زندگی میں ہر دم مختلف مجلسوں سے واسطہ پڑتا ہے خاندان ،برادری اور معاشرے کی یہ مجالس جہاں ا س کے اقبال میں بلندی ،عزت وشہرت میں اضافے او ر نیک نامی کا باغث بنتی ہیں وہیں اس کی بدنامی ،ذلت اور بے عزتی کاباعث بنتی ہیں انسان کو ان مجلسوں میں شریک ہو کر کیسا رویہ اختیار کرناچاہیے کہ جو اسے لوگوں کی نظروں میں ایسا وقار اور عزت وتکریم والا مقام بخش دے کہ لوگ اس کے مرنے کے بعد بھی اسے یادرکھیں ۔دنیا میں کچھ مجلسیں اور محفلیں ایسی ہوتی ہیں کہ ان میں شریک ہو کر انسان اپنے دامن کوسعادت مندی کے موتیوں سے بھر لیتا ہے ۔ اجر وثواب اور اللہ تعالیٰ کی رضا وخوشنودی کا حقدار ٹھہرتا ہے۔ او رکچھ مجلسیں ایسی ہوتی ہیں جن میں شریک ہونا اس کے لیے بدبختی کاباعث بن جاتا ہے او ر اس جھولی میں موجود پہلے موتی بھی بکھر کر ضائع ہوجاتے ہیں ۔ یوں پھولوں اور کلیوں کی بجائے وہ کانٹوں کا حقدار ٹھہرتا ہے۔اور جس طرح باغات اپنے پھلوں سے پہنچانے جاتے ہیں، پھول کلیاں، خواہ وہ چنبیلی ہو یا گلاب، اپنی خوشبو سے پہنچانے جاتے ہیں۔ خاندان اپنے افراد کے رویوں سے پہنچانے جاتے ہیں، اسی طرح مجالس اپنے شرکاء سے پہنچانی جاتی ہیں، خواہ وہ مجالس مردوں کی ہوں یاخواتین کی ۔ اگرمجالس میں حاضری اور کار گزاری کا ماحاصل مثبت، پسندیدہ ،مہذب اورافرادو معاشرے کےلیے باعث نفع و راحت ہو توسمجھا جاتا ہے کہ یہ مجلس قابل تعریف وستائش ہے ۔اگر مجلس اس کے برعکس ہوتو اس کو ہمیشہ برے الفاظ سے یاد کیا جاتا ہے اور اس کے شرکاء کو کوئی بھی تحسین بھری نظروں اور پسندیدگی سے نہیں دیکھتا، بلکہ خود بھی ایسی مجلس سے بچتا ہے اور اپنے قریبی افراد اور اپنے خاندان کو بھی اس سے بچانے کی بھر پور کوشش کرتا ہے۔خاص طور پر جب یہ مجالس خواتین کی ہوگی تو معاملہ مزید احتیاط طلب ہوجائے گا۔ خواتین کی مجالس اس لیے بھی زیادہ اہمیت کی حامل ہوتی ہیں کہ یہ خواتین کے مستقل رویوں پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ اور ان مجالس کے خواتین پر مرتب ہونے والے اثرات آخر دم تک قائم رہتے ہیں ، اور پھر یہی اثرات اس کی نسل آئندہ آنے والے خاندان اور بچوں میں منتقل ہوجاتے ہیں۔ اگر یہ اثرات مثبت ہوں گے تو صحت مند افکار ونظریات کی حامل صالح نسل پروان چڑھے گی ورنہ مجرم اور دنگا وفساد کی دلدادہ نسل سامنے آئے گی۔ زیر نظر کتاب ’’مجالس خواتین‘‘ محمد امین بن مرزا عالم کی تصنیف ہے جس میں انہوں نے بڑے احسن انداز میں اس بات کو واضح کیا ہے کہ ایک مسلمان بہن کو کس طرح کی مجلس میں شرکت کرنی چاہیے؟اور اچھی اور بری مجالس کی پہچان کس طرح کی جائے ؟نیک مجالس کے ثمرات اور بری مجالس کےنقصانات کیا ہیں؟ اورمجالس قائم کرنے کے مقاصد کیا ہونے چاہئیں؟ اور خواتین اپنی مجالس کوزیادہ سےزیادہ موزروں اور فائدہ مند کیسے بناسکتی ہیں؟ مزید برآں مصنفہ نے بعض غیر موزوں مجالس کی نشاندہی کرتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ خواتین کو کس طرح کی مجالس میں شریک ہونے سے بچنا چاہیے۔ یہ کتاب خواتین کے لیے انتہائی لائق مطالعہ ہے۔ اس کتاب سے استفادہ کرکے خواتین یہ جان سکتی ہیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کی پسندیدہ مجالس میں شریک ہوکر ایک مسلمان خاتون خاتونِ اسلام سےلے کر خاتون ِجنت تک کےمراحل طے کرسکتی ہے؟۔اللہ اس کتاب کو خواتین ِاسلام کے لیے نفع بخش بنائے اور اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطافرمائےمحترم محمد طاہر نقاش ﷾ کو اور ان کے علم وعمل ،کاروبار میں برکت او ران کو صحت وتندرستی والی زندگی عطائے فرمائے کہ انہوں نے اپنے ادارے’’ دار الابلاغ‘‘ کی مطبوعات مجلس التحقیق الاسلامی کی لائبریری اور کتاب وسنت ویب سائٹ پر پبلش کرنے کے لیے ہدیۃً عنائت کی ہیں۔ آمین( م۔ا).
دین اسلام ایک کامل ضابطہ حیات ہے جس میں تمام افراد بشر...
سیرت کا موضوع گلشن سدابہار کی طرح ہے جس کی سج دہج...
اردو کی سب سے زیادہ مایہ ناز کتاب سیرت النبیﷺ جو علامہ...
اللہ تبارک وتعالیٰ نے مسلمانوں کو ایک بڑی دولت اور نعمت سے...
کوئی بھی زبان سیکھنے کے لیے اس زبان کی گرامر پر عبور...
جادو، جنات کاموضوع سرزمین پاک وہند میں ہمیشہ سےعوام وخواص کی دلچسپی...
Created with AppPage.net
Similar Apps - visible in preview.